Monday, 8 March 2021

Ashab e Imam Musa Kazim as

 اصحابِ امام موسٰی کاظم علیہ السلام

اگرچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی زندگی کڑی نگرانی اور پھر قید و بند میں گزری پھر بھی محدثین نے آپ سے فقہ اور دوسرے موضوعات پر اس سے کہیں زیادہ حدیثیں روایت کی ہیں جتنی آپ کے بعد کسی اور امام سے کی ہوں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے والد بزرگوار کی زندگی میں اتنا سا وقت مل گیا کہ جس میں آپ نے اپنے اصحاب اور جامعہ اہلبیت کے طالبعلموں کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ چنانچہ آپ کے والد بزرگوار کی وفات کے بعد سخت حالات میں لوگوں کو جب بھی موقع ملتا خواہ رات کی تاریکی میں سہی وہ آپ سے رجوع کیا کرتے تھے۔
آپ کے اصحاب میں چھ افراد صدق اور امانت میں مشہور ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ائمہ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات نقل کیں راویوں نے ان کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ محدثین میں تین اماموں یعنی امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے اٹھارہ افراد بہت مشہور ہیں اور وہ اصحاب اجماع کہلاتے ہیں۔ ان میں سے چھ امام محمد باقر علیہ السلام، چھ امام جعفر صادق علیہ السلام کےاور چھ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے اصحاب ہیں۔

امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے وہ چھ اصحاب یہ ہیں؛
یونس بن عبدالرحمان، صفوان بن یحیٰ بیاع السابری، محمد بن عمیر، عبدالله بن مغیرہ، حسن بن محبوب سراد اور احمد بن ابی نصر بزنطی۔
یونس بن عبدالرحمان؛  آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے آپ سے احادیث اخز کی ہیں۔ پھر انہوں نے امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا کچھ زمانہ بھی پایا جیسا کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا؛ یونس بن عبدالرحمان کا اپنے زمانے میں وہی مقام ہے جو سلمان فارسی کا اپنے زمانے میں تھا۔
شیخ طوسی نے الفہرست میں کہا ہے کہ مختلف موضوعات پر یونس بن عبدالرحمان کی لکھی ہوئی تیس کتابیں تھیں۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ روزانہ چالیس مومن بھائیوں سے ملاقات کرتے اور پھر اپنے گھر واپس آتے تھے۔ نیز نماز، طعام اور حوائج ضروری کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھنا لکھنا ترک نہ کرتے تھے۔ ان کی اکثر تالیفات علم الکلام میں ہیں اور ان کے بارے میں بعض ممتاز اہل ع و فن کی آراء، ان کی وسعتِ علم اور قوت فکر پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ کشی نے کتاب الرجال، مرزا محمد نے اتقان المقال میں اور محدث قمی نے الکنٰی والالقاب میں صراحت کی ہے۔ 
محمد بن ابی عمیر؛ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور ان کے فرزند امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے ان دونوں اماموں سے حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا اور پھر انہی معلومات کی روشنی میں فقہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں تالیف کیں۔
احمد بن محمد بن عیسٰی قمی بیان کرتے ہیں کہ محمد بن ابی عمیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک سو افراد کی روایات جمع کی ہیں۔ جاحظ کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار، تمام خوبیوں میں اپنے زمانے کے فرد وحید اور خاص و عام کے نزدیک معتمد ترین شخص تھے۔
فضل بن شاذان نے بیان کیا ہے کہ جب میں عراق گیا تو وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھی کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ارے تمہارے اوپر قرض ہے اور تم صاحب عیال بھی ہو، اس لئے تم کو چاہئے کہ ان کے لئے روزی کماؤ۔ اس حالت میں تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ سجدوں کو طول دینے کیوجہ سے کہیں تمہاری آنکھیں ہی نہ جاتی رہیں۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ وائے ہو تمہارے حال پر کہ تم مجھ پر بہت زیادتی کر رہے ہو۔ ارے اگر سجدوں کو طول دینے سے کسی کی آنکھیں جائا کرتیں تو پھر سب سے پہلے ابن ابی عمیر کی آنکھیں جاتیں کہ جو بہت ہی طولانی سجدے کیا کرتے تھے۔
خلیفہ ہارون نے ان کو اس لئے قید میں ڈال دیا کہ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے خصوصی میل جول رکھتے تھے۔ اس نے یہ پابندی بھی لگا دی کہ ان کو امام کے اصحاب اور خاص دوستداروں کے حالات کی کوئی خبر نہ دی جائے تاہم ان کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ سب کو پہلے ہی سے جانتے پہچانتے تھے۔ وہ ایک مدت تک قید میں رہے اور جب اس سے بہت تنگ آگئے تو انہوں نے قید خانے کے داروغہ سندی بن شاہک کو ایک لاکھ بیس ہزار درہم دئیے تب ان نے ان کو رہا کر دیا۔
ان کے حالات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان کو یہ خوف تھا کہ کہیں ہارون کے ملازمین ان کی وہ تالیفات ہتھیا نہ لیں جو ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث پر مشتمل تھیں۔ اس لئے انہوں نے وہ کتابیں اپنے گھر کے ایک گوشے میں دفن کر دی تھیں لیکن افسوس کہ جب وہ قید سے چھوٹ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سب گل چکی تھیں۔ اس کے بعد وہ جو روایت بھی کرتے محض اپنے حافظے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر سند کے نقل کیا کرتے تھے تاہم فقہاء نے ان کی ایسی بلاسند احادیث کو بھی معتبر مانا ہے کیونکہ وہ ان کے معتمد ہونے اور ان کی روایتوں کے بلاسند ہونے کے مذکورہ بالا سبب سے واقف تھے۔ چنانچہ محدثین میں یہ امر مشہور ہوگیا تھا کہ ابن عمیر کی یہ بلاسند روایات دوسرے قابل اعتماد راویوں کی ان روایات کے مانند ہیں جن کو سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
صفوان بن یحییٰ بیار سابری؛ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے آپ کی وفات کے بعد امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ ان کے حالات میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے چالیس شاگردوں سے روایات لیں اور احادیث ائمہ پر مشتمل تیس سے اوپر کتابیں لکھی ہیں جیسا کہ کشی، طوسی، ابن ندیم اور کتب رجال کے دوسرے مؤلفین نے صراحت کی ہے۔
عبدالله بن مغیرہ بجلی؛ کتب رجال کے مؤلفین نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ روایت میں انتہائی بااعتماد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ان اصحاب میں سے ہیں کہ جن کی آپ سے لی ہوئی روایات کی صحت پر محدثین کی پوری جماعت نے یقین کیا ہے۔ عبدالله بن مغیرہ بجلی نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔
حسن بن محبوب سراد، احمد بن محمد بن عمرو بزنطی؛ یہ دونوں ہی امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام کے معتمد اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے امام محمد تقی علیہ السلام کا زمانہ بھی پایا اور آپ سے فقہ وغیرہ میں روایات بھی لی ہیں۔ کتب رجال کے مؤلفین نے صراحت کی ہے کہ ان دونوں کی بیان کی ہوئی روایات کے قبول کرنے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ 

چونکہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ان چھ اصحاب، امام جعفر صادق علیہ السلام کے چھ اصحاب اور امام محمد باقر علیہ السلام کے چھ اصحاب کے صدق و دیانت اور ان کی روایات کو قبول کرنے پر سبھی محدثین کا اتفاق ہے اس لئے ان اٹھارہ بزرگوں کو اصحاب اجماع کہا جاتا ہے۔
اگرچہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے شاگردوں میں ان چھ افراد کے علاوہ اور لوگ بھی مشہور ہوئے لیکن جیسا کہ علم رجال کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان چھ اصحاب کے مرتبے کو نہیں پہنچے۔ 

کتاب؛ سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام جلد دوم
صفحہ؛ ۳۰۹-۳۱۱
مصنف؛ علامہ سید ہاشم معروف حسنی

التماس دعا؛ بندہ احقر توصیف اسلم امرہ کلاں

Saturday, 6 March 2021

فرامینِ امام موسٰی کاظم علیہ السلام

 امام موسٰی کاظم علیہ السلام کےمختصر کلمات

امام موسٰی ابن جعفر علیہ السلام ساتویں امام برحق ہیں۔ یہاں پر ہم ان کے چند مختصر فرامین نقل کریں گے جن کا ایک ایک لفظ انسان کے لئے رہنما اصول 
اور سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ 




سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام میں علامہ سید ہاشم معروف حسنی نے امام موسٰی کاظمؑ کے چند فرامین  کچھ یوں بیان کئے ہیں۔

۔۱۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جتنا مال تم الله تعالٰی کی اطاعت میں خرچ کرنے سے باز رہو، اتنا ہی اس کی نافرمانی میں خرچ کر ڈالو۔

  ۔۲۔ مومن ترازو کے دو پلڑوں کی مانند ہوتا ہے یعنی جوں جوں اس کا ایمان بڑھتا ہے اس کی آزمائش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔

۔۳۔ اچھی ہمسائیگی صرف ضرر رسانی سے رکے رہنا ہی نہیں بلکہ ضرر پہنچنے پر صبر کرنا بھی اچھی ہمسائیگی ہے۔

۔ ۴۔ اپنے دل میں ناداری کا خوف اور طول عمر کی خواہش نہ رکھو کیونکہ جس کو ناداری کا خوف ہو وہ کنجوسی کرنے لگتا ہے اور جو طول عمر کی خواہش کرتا ہے وہ لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

۔۵۔ دنیا کی نعمتوں میں سے اپنے لئے اتنا حصہ لے لو جو جائز ضروریات کے لئےہو، جس سے مروت پر دھبہ نہ آئے اور اس میں فضول خرچی بھی نہ ہو۔ پھر اس سے اپنے دینی معاملات کے انجام دینے میں مدد لو کیونکہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو دین کی خاطر دنیا کو چھوڑ دے یا دنیا کے پیچھے دین کو ترک کر دے۔

۔۶۔ فقیہ کا مرتبہ ایک عابد سے اسی طرح بلند ہے جس طرح ستاروں سے آفتاب کا مرتبہ بلند ہے۔

۔۷۔ آپؑ نے علی بن یقطین سے فرمایا؛ حاکم کے مفاد میں کام کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔ جب لوگ ایسے گناہ کرنے لگیں کہ جو انہوں نے پہلے کبھی نہ کئے ہوں تو الله تعالٰی بھی ان پر ایسی مصیبتیں نازل کرے گا جو اُن پر کبھی نہ آئی ہوں۔

۔۹۔ امامؑ نے فرمایا؛ قیامت کے روز ایک منادی یہ آواز دے گا کہ ہر وہ شخص کھڑا ہو جائے جس پر الله تعالٰی کا کوئی اجر نکلتا ہو۔ اس پر صرف وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنھوں نے کسی کا قصور معاف کر کے اس سے صلح کی ہوگی کیونکہ ایسے ہی لوگوں کا اجر الله تعالٰی پر ہوتا ہے۔

۔۱۰۔ آپؑ نے یہ بھی فرمایا؛ وہ سخی شخص کہ جو خوش خلق بھی ہو، وہ الله تعالٰی کے قرب میں رہتا ہے۔ پھر الله تعالٰی اس کو ہرگز دور نہیں کرتا یہاں تک کہ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ چنانچہ میرے والد بزرگوار اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مجھ کو سخاوت اور حسن اخلاق کی برابر تلقین فرماتے رہے۔

کتاب۔ سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام جلد دوم
صفحات  ۳۱۷-۳۱۸
مصنف۔ علامہ سید ہاشم معروف حسنی


التماس دعا۔ بندہ احقر توصیف اسلم امرہ کلاں

Friday, 5 March 2021

Visiting God



Visiting God

God loves the one who is kind to His servants. If you read the Qur’an, you will see in many verses that God wants us to be kind to His servants. 

Being kind to God’s servants is so important that it is as if we, by being kind to God’s servants, are being kind to God Himself. On the Day of judgment, God will say to one of the humans, “Oh son of Adam! Why didn’t you come to visit Me when I was sick?” The man, surprised, will ask, “Oh Lord! You are the Lord of everyone and their God, how could I come to visit You when You were sick?!” God will say, “One of My servants was sick. If you had gone to visit him, it would be as if you had visited Me.” Then, God will say, “I wanted water but you didn’t give me any.” That man will say, “Oh God! But you are the God. You never needed water so that I could give it to you.” God will say, “One of My servants needed water but you didn’t give him. If you had given him water, I would have given you the reward of your kind act right now.”

Then, God will say, “I wanted food from you but you didn’t give Me any.” That person will say, “Oh Lord! You are the God and You never needed food so that You would want it from me.” God will say, “One of My servants wanted food from you but you didn’t give him. If you had given him food, I would have given you a reward right now.”


اے علی تم دنیاوآخرت میں میرے بھائی ہو۔ الحدیث


جیسا کہ سیرت کی بعض کتابوں اور احادیث کے مجموعوں میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے قبل اس کے کہ وہ یثرب کی طرف ہجرت کریں مہاجرین کے درمیان مکے میں ہی بھائی بھائی کا رشتہ قرار دے دیا تھا۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ نے ابوبکر اور عمر میں، عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف میں، حمزہ اور زید بن حارثہ میں، زبیر بن عوام اور عبداللَٰہ بن مسعود مین اور اسی طرح دیگر لوگوں میں اخوت کا رشتہ قائم فرمایا یہاں تک کہ حضرت علیؑ کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ مسلمانوں کو یہ امر عجیب معلوم ہوا کہ رسول اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو چھوڑ دیا اور ان کے اور کسی دوسرے مسلمان کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قائم نہیں کیا۔ تب رسول اکرمؐ نے علیؑ سے فرمایا: کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا بھائی ہوں؟
حضرت علیؑ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ بولے: ضرور یارسول اللّٰہؐ۔
پس رسول اکرمﷺ نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔
اس کے باوجود کہ اس بارے میں بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں بعض افراد اس مواخات اور خاص کر رسول اکرمؐ اور حضرت علیؑ کے درمیان مواخات سے انکار کرتے ہیں۔ غالباََ ان کے انکار کا سبب یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت علیؑ کو اپنے لئے منتخب کیا اور ان کو اس مرتبے سے وہ خصوصیت مرحمت فرما دی کہ تمام صحابہ جس کی تمنا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے ان کے بڑے بڑوں کو چھوڑ دیا اور ان کو عوام الناس کے برابر کر دیا۔
سیرت ابن ہشام اور دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اکرمﷺ نے ان میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے یہ رشتہ ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار میں قرار دیا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ خون کے رشتوں اور دوستی کے معاہدوں کے تعلقات کہ جن کا عرب قبیلوں میں عام رواج تھا، وہ ان کی زندگی پر حاوی تھے اور ان کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہے تھے، ان کی بجائے ان سب کو اسلام اور ایمان کے رشتے میں پرو دیا جائے۔
اس اخوت سے رسول اکرمؐ کا مطلوب یہ تھا کہ ان کی صفوں میں نظم پیدا کردیں۔ اسلام کے جھنڈے تلے ان کی وحدت کو مضبوط بنا دیں اور ان کو الله کے نام پر آپس میں اس طرح بھائی بھائی بنا دیں تاکہ وہ غصہ، خوشی، محبت، نفرت سب کچھ الله ہی کے لئے کریں اور آپس کے کینے اور انتقام بھول جایں۔ رسول اکرمؐ کی یہ پُر حکمت تدبیر سب سے پہلے آپ کی دور اندیشی اور گہری فکر کا ثبوت دیتی ہے کیونکہ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ اسلام کو وسیع تحریکیں، سخت مشقتیں اور آزمائشیں پیش آنے والی ہیں جن پر مقصد و غایت کی وحدت نیز ان لڑائیوں اور غارتگریوں سے علیحدہ رہ کر ہی غلبہ حاصل کیا جا سکتا تھا جو عرب قبیلوں میں اور خاص کر اوس اور خزرج میں اور مدینے کے قرب و جوار میں بسنے والے قبیلوں کے درمیان ہوتی رہتی تھیں اور ان دشمنیوں کی یاد مزید کینے اور بہت سے اسباب پیدا کرتی رہتی تھی جو ان کو پیہم جنگوں میں مبتلا کرتے تھے۔
علاوہ بریں مدینے آنے والے مہاجروں میں سے بیشتر ایسے تھے کہ جن کے پاس ایک روز کا کھانا بھی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ان کو شدید ضرورت تھی کہ وہ وسائل زندگی کے حصول کے لئے کوئی کام کاج کریں۔ اس کے لئے سردست ایک یہی طریقہ تھا جو رسول اکرمؐ نے اختیار فرمایا اور ان کے درمیان اس طرح کا رشتہ قائم کر دیا جس نے انصار کے دلوں میں بہت خوش آئند اثر پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کے لئے راہ حیات آسان کردی یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے افراد چند ہی برسوں میں خوشحال ہوگئے اور دولت مندوں میں شمار ہونے لگے۔
ابن ہشام مزید لکھتے ہیں؛ رسول اکرم ص نے یہ مواخات اس طرح قائم فرمائی کہ ابوبکر اور خارجہ بن زید کو، عمربن خطاب اور عتبان بن مالک کو، جراح اور سعد بن معاذ کو، عبدالرحمان بن عوف اور سعد بن ربیع خزرجی کو، زبیر بن عوام اور سلمہ بن سلامہ کو، عثمان بن عفان اور اوس بن ثابت کو آپس میں بھائی بھائی بنایا اور اسی طرح دوسروں کو بھی یہاں تک کہ کوئی ایسا مہاجر باقی نہیں رہا جس کو ایک انصاری کا بھائی نہ قرار دیا گیا ہو۔ ہر انصاری اپنے نئے مہاجر بھائی کو وجوب کے طور پر بھائی سمجھنے لگا اور وہ اس کو اپنے برابر بلکہ کھانے میں بھی برابر کا شریک قرار دیتا تھا۔ چنانچہ دن گزرنے کے ساتھ شیرازے اور رشتے جو لوگوں کو باہم دگر باندھے ہوئے تھے کمزور پڑنا شروع ہوگئے یہاں تک کہ بھول بسر گئے اور ان کی جگہ اس اسلامی اخوت نے لے لی اور وہی ان کا مقصد اور طرز حیات بن گئی۔ غالباً یہ صورت بھی ان اسباب میں سے ایک ہےجن کے باعث مسلمانوں کو چند ہی برسوں میں وہ فتوحات حاصل ہو گئیں جنھوں نے مسلمانوں کو بہت آگے بڑھا دیا لیکن جب یہ روح کم اور کمزور ہونا شروع ہو گئی تو اسلامی حکومتوں کے جسم میں بھی کمزوری داخل ہونے لگی حتٰی کہ مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے اور اس حالت کو آن پہنچے جس میں وہ آج کل ہیں۔ اب وہ غیروں کے غلام بن گئے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ دنیا کے سردار اور ایک باعزت قوم تھے۔
ریاض النضرة میں لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ نے اس موقع پر بھی حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑے رکھا۔ ان کے اور کسی اور کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قرار نہیں دیا۔ تب حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ یارسول اللهﷺ آپ نے سب لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنایا لیکن مجھے نظرانداز فرما دیا ہے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ تم کو میں نے اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ اگر کوئی تم سے اس کا ذکر چھیڑے تو کہہ دینا کہ میں خدا کا بندہ اور رسول اکرمؐ کا بھائئ ہوں۔ میرے بعد جھوٹے کے سوا اس کا دعویٰ نہیں کرے گا۔
سید مرتضٰی فیروز آبادی نے فضائل الخمسہ کی جلد اول میں اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اس حدیث کو احمد نے مناقب میں، علی متقی نے کنزالعمال میں اور ابن عدی نے کامل میں روایت کی ہے۔
ریاض النضرة کی جلد اول میں طبرانی سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا؛ قسم اس ذات کی جس نے مجھ کو برحق مبعوث فرمایا، میں نے تم کو اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ تم میرے ساتھ اس منزل پر ہو جیسے موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تم میرے بھائی اور میرے وارث ہو۔
علی علیہ السلام نے کہا؛ یارسول اللہﷺ! مجھ کو وراثت میں کیا ملے گا؟
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ جو مجھ سے پہلے انبیاء نے وراثت میں پایا تھا۔
علی علیہ السلام نے دریافت کیا؛ آپ سے پہلے انبیاء نے وراثت میں کیا پایا تھا؟
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت۔ اور تم جنت میں میرے قصر میں میری بیٹی فاطمہ سلام اللّٰہ علیہا کے ساتھ ہوگے۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی؛
اِخواناً عَلٰى سُرُرٍمُّتَقٰبِلِينَ- بھائیوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے مسندوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔سورہ حجر؛ آیت 47
 کتاب۔ سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام جلد اول صفحہ ]195-198]
مصنف۔ علامہ سید ہاشم معروف حسنی

التماس دعا۔ بندہ احقر توصیف اسلم امرہ کلاں

Alqabat e Hazrat Ali as


اس ویڈیو میں ایران کے ایک ٹی وی چینل پر بہترین اور منفرد انداز میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے القابات پیش کئے گئے ہیں۔ 



 

The kindest one of the kindest

 The kindest of the kindest 

All the mothers and fathers love their children. If they didn’t love their children, they wouldn’t work so hard to raise them. If the fathers work during the day, it is because they want their children to be comfortable. If the mothers wake up at night due to the cries of their babies and feed them milk, it is because they love their children. Every mother and father love his or her children and is kind to them to the greatest possible extent. 

Yes, mother and father are kind, but you should know that God is even kinder than mother and father. He loves His servants very much. One day, a man came to Prophet Muhammad (s.a.w.w) with his child. The man was holding his child and was kindly embosoming him. It was obvious that he loved his child a lot. The prophet (s.a.w.w) asked him, “God’s kindness towards you is greater than your kindness towards your child. God is the kindest of the kindest.”

Thursday, 4 March 2021

The birth of chickens

 The birth of chickens 

The world is full of the signs of God’s existence. Wherever you look, you will find at least one of the signs of God. The Sun which lights the Earth, like a huge lamp, is one of the signs of God. The trees which give us colourful fruits are some of the signs of God. Thunder and lightning are other signs of God’s existence. The birds which fly in the sky are all signs of God. It is as if all of them are saying, “it is the God who has created us.”
You can see God’s skill in His creation by looking at the birth of little chickens. You know that the chickens hatch from the eggs. Hens sit on the eggs for a period of 21 days and after that, chicks are formed inside the eggs. When the chicks body has developed completely, it breaks the eggshell and comes out of the egg by itself. 
One day, one of the disbelievers came to Imam Sadiq (a.s) to talk to him about God. The son of Imam Sadiq (a.s) had an egg in his hands and was playing with it. Imam Sadiq (a.s) took that egg from his son and said to the disbeliever, “This egg is like a closed room. It has a hard shell and under that shell is a weaker shell. Inside this egg, there is yolk and albumen which never mix. No hand ever enters the egg to create a chick. But colourful chick hatches from this very egg. Who brings this beautiful chick into existence inside the egg?”
From these words of Imam Sadiq (a.s), the disbeliever understood that God exists and became a Muslim. 

Wednesday, 3 March 2021

God, I love you

 


 If we look at our surroundings, we see that God has bestowed numerous blessings on us. The hands and legs we have are the blessings of God. Our eyes and ears are the blessings of God. The fruits we eat and water we drink are the blessings of God. The world is full of blessings which we use in some way.

The more we will think about His blessings, the stronger our faith will be in Him and the more we will love Him. One day, God told prophet Musa (a.s), "Love me and do something that people will also love me." Musa (a.s) said, "Oh God! you know that no one is more loved by me than you. I love you very much. But the hearts of your servants are not in my hands. How can I do something to make them love you?" God replied, "Remind them of my blessings and when they will think of my blessings, they will remember me and love me."

The sinful man and the thirsty dog

 God is kind and likes those who are kind too. If we want God to be kind to us and forgive our sins, the best thing for us to do is to be kind to His creatures. 

A believer should be kind to the animals as well; this is because animals are also God’s creation and the Exalted God likes acts of kindness towards them. Hundreds of years ago, there was a sinful man and everybody knew that he is a bad person. One day, he saw a thirsty dog that has brought his tongue out of mouth due to thirst. The sinful man felt sorry for the dog and went near a well to get some water for the dog. He looked around to find a rope but he did not find it. To obtain water, he made a rope using one of the garments he was wearing and tied it to a container and dropped it in the well. Then, he brought the container out of the well and placed it in front of the dog. The dog drank the water and was rescued from thirst.

God told one of Prophets of that time, “I liked the sinful man’s act of kindness towards one of My creatures and I have forgiven all of his sins.”

That prophet conveyed God’s message to the sinful man. When the sinful man heard this, he asked for forgiveness from God and became virtuous person. 


Ashab e Imam Musa Kazim as

 اصحابِ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اگرچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی زندگی کڑی نگرانی اور پھر قید و بن...

Also Read