Friday, 5 March 2021

اے علی تم دنیاوآخرت میں میرے بھائی ہو۔ الحدیث


جیسا کہ سیرت کی بعض کتابوں اور احادیث کے مجموعوں میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے قبل اس کے کہ وہ یثرب کی طرف ہجرت کریں مہاجرین کے درمیان مکے میں ہی بھائی بھائی کا رشتہ قرار دے دیا تھا۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ نے ابوبکر اور عمر میں، عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف میں، حمزہ اور زید بن حارثہ میں، زبیر بن عوام اور عبداللَٰہ بن مسعود مین اور اسی طرح دیگر لوگوں میں اخوت کا رشتہ قائم فرمایا یہاں تک کہ حضرت علیؑ کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ مسلمانوں کو یہ امر عجیب معلوم ہوا کہ رسول اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو چھوڑ دیا اور ان کے اور کسی دوسرے مسلمان کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قائم نہیں کیا۔ تب رسول اکرمؐ نے علیؑ سے فرمایا: کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا بھائی ہوں؟
حضرت علیؑ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ بولے: ضرور یارسول اللّٰہؐ۔
پس رسول اکرمﷺ نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔
اس کے باوجود کہ اس بارے میں بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں بعض افراد اس مواخات اور خاص کر رسول اکرمؐ اور حضرت علیؑ کے درمیان مواخات سے انکار کرتے ہیں۔ غالباََ ان کے انکار کا سبب یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت علیؑ کو اپنے لئے منتخب کیا اور ان کو اس مرتبے سے وہ خصوصیت مرحمت فرما دی کہ تمام صحابہ جس کی تمنا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے ان کے بڑے بڑوں کو چھوڑ دیا اور ان کو عوام الناس کے برابر کر دیا۔
سیرت ابن ہشام اور دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اکرمﷺ نے ان میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے یہ رشتہ ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار میں قرار دیا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ خون کے رشتوں اور دوستی کے معاہدوں کے تعلقات کہ جن کا عرب قبیلوں میں عام رواج تھا، وہ ان کی زندگی پر حاوی تھے اور ان کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہے تھے، ان کی بجائے ان سب کو اسلام اور ایمان کے رشتے میں پرو دیا جائے۔
اس اخوت سے رسول اکرمؐ کا مطلوب یہ تھا کہ ان کی صفوں میں نظم پیدا کردیں۔ اسلام کے جھنڈے تلے ان کی وحدت کو مضبوط بنا دیں اور ان کو الله کے نام پر آپس میں اس طرح بھائی بھائی بنا دیں تاکہ وہ غصہ، خوشی، محبت، نفرت سب کچھ الله ہی کے لئے کریں اور آپس کے کینے اور انتقام بھول جایں۔ رسول اکرمؐ کی یہ پُر حکمت تدبیر سب سے پہلے آپ کی دور اندیشی اور گہری فکر کا ثبوت دیتی ہے کیونکہ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ اسلام کو وسیع تحریکیں، سخت مشقتیں اور آزمائشیں پیش آنے والی ہیں جن پر مقصد و غایت کی وحدت نیز ان لڑائیوں اور غارتگریوں سے علیحدہ رہ کر ہی غلبہ حاصل کیا جا سکتا تھا جو عرب قبیلوں میں اور خاص کر اوس اور خزرج میں اور مدینے کے قرب و جوار میں بسنے والے قبیلوں کے درمیان ہوتی رہتی تھیں اور ان دشمنیوں کی یاد مزید کینے اور بہت سے اسباب پیدا کرتی رہتی تھی جو ان کو پیہم جنگوں میں مبتلا کرتے تھے۔
علاوہ بریں مدینے آنے والے مہاجروں میں سے بیشتر ایسے تھے کہ جن کے پاس ایک روز کا کھانا بھی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ان کو شدید ضرورت تھی کہ وہ وسائل زندگی کے حصول کے لئے کوئی کام کاج کریں۔ اس کے لئے سردست ایک یہی طریقہ تھا جو رسول اکرمؐ نے اختیار فرمایا اور ان کے درمیان اس طرح کا رشتہ قائم کر دیا جس نے انصار کے دلوں میں بہت خوش آئند اثر پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کے لئے راہ حیات آسان کردی یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے افراد چند ہی برسوں میں خوشحال ہوگئے اور دولت مندوں میں شمار ہونے لگے۔
ابن ہشام مزید لکھتے ہیں؛ رسول اکرم ص نے یہ مواخات اس طرح قائم فرمائی کہ ابوبکر اور خارجہ بن زید کو، عمربن خطاب اور عتبان بن مالک کو، جراح اور سعد بن معاذ کو، عبدالرحمان بن عوف اور سعد بن ربیع خزرجی کو، زبیر بن عوام اور سلمہ بن سلامہ کو، عثمان بن عفان اور اوس بن ثابت کو آپس میں بھائی بھائی بنایا اور اسی طرح دوسروں کو بھی یہاں تک کہ کوئی ایسا مہاجر باقی نہیں رہا جس کو ایک انصاری کا بھائی نہ قرار دیا گیا ہو۔ ہر انصاری اپنے نئے مہاجر بھائی کو وجوب کے طور پر بھائی سمجھنے لگا اور وہ اس کو اپنے برابر بلکہ کھانے میں بھی برابر کا شریک قرار دیتا تھا۔ چنانچہ دن گزرنے کے ساتھ شیرازے اور رشتے جو لوگوں کو باہم دگر باندھے ہوئے تھے کمزور پڑنا شروع ہوگئے یہاں تک کہ بھول بسر گئے اور ان کی جگہ اس اسلامی اخوت نے لے لی اور وہی ان کا مقصد اور طرز حیات بن گئی۔ غالباً یہ صورت بھی ان اسباب میں سے ایک ہےجن کے باعث مسلمانوں کو چند ہی برسوں میں وہ فتوحات حاصل ہو گئیں جنھوں نے مسلمانوں کو بہت آگے بڑھا دیا لیکن جب یہ روح کم اور کمزور ہونا شروع ہو گئی تو اسلامی حکومتوں کے جسم میں بھی کمزوری داخل ہونے لگی حتٰی کہ مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے اور اس حالت کو آن پہنچے جس میں وہ آج کل ہیں۔ اب وہ غیروں کے غلام بن گئے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ دنیا کے سردار اور ایک باعزت قوم تھے۔
ریاض النضرة میں لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ نے اس موقع پر بھی حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑے رکھا۔ ان کے اور کسی اور کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قرار نہیں دیا۔ تب حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ یارسول اللهﷺ آپ نے سب لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنایا لیکن مجھے نظرانداز فرما دیا ہے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ تم کو میں نے اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ اگر کوئی تم سے اس کا ذکر چھیڑے تو کہہ دینا کہ میں خدا کا بندہ اور رسول اکرمؐ کا بھائئ ہوں۔ میرے بعد جھوٹے کے سوا اس کا دعویٰ نہیں کرے گا۔
سید مرتضٰی فیروز آبادی نے فضائل الخمسہ کی جلد اول میں اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اس حدیث کو احمد نے مناقب میں، علی متقی نے کنزالعمال میں اور ابن عدی نے کامل میں روایت کی ہے۔
ریاض النضرة کی جلد اول میں طبرانی سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا؛ قسم اس ذات کی جس نے مجھ کو برحق مبعوث فرمایا، میں نے تم کو اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ تم میرے ساتھ اس منزل پر ہو جیسے موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تم میرے بھائی اور میرے وارث ہو۔
علی علیہ السلام نے کہا؛ یارسول اللہﷺ! مجھ کو وراثت میں کیا ملے گا؟
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ جو مجھ سے پہلے انبیاء نے وراثت میں پایا تھا۔
علی علیہ السلام نے دریافت کیا؛ آپ سے پہلے انبیاء نے وراثت میں کیا پایا تھا؟
رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت۔ اور تم جنت میں میرے قصر میں میری بیٹی فاطمہ سلام اللّٰہ علیہا کے ساتھ ہوگے۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی؛
اِخواناً عَلٰى سُرُرٍمُّتَقٰبِلِينَ- بھائیوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے مسندوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔سورہ حجر؛ آیت 47
 کتاب۔ سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام جلد اول صفحہ ]195-198]
مصنف۔ علامہ سید ہاشم معروف حسنی

التماس دعا۔ بندہ احقر توصیف اسلم امرہ کلاں

No comments:

Post a Comment

Ashab e Imam Musa Kazim as

 اصحابِ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اگرچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی زندگی کڑی نگرانی اور پھر قید و بن...

Also Read