اصحابِ امام موسٰی کاظم علیہ السلام
اگرچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی زندگی کڑی نگرانی اور پھر قید و بند میں گزری پھر بھی محدثین نے آپ سے فقہ اور دوسرے موضوعات پر اس سے کہیں زیادہ حدیثیں روایت کی ہیں جتنی آپ کے بعد کسی اور امام سے کی ہوں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے والد بزرگوار کی زندگی میں اتنا سا وقت مل گیا کہ جس میں آپ نے اپنے اصحاب اور جامعہ اہلبیت کے طالبعلموں کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ چنانچہ آپ کے والد بزرگوار کی وفات کے بعد سخت حالات میں لوگوں کو جب بھی موقع ملتا خواہ رات کی تاریکی میں سہی وہ آپ سے رجوع کیا کرتے تھے۔
آپ کے اصحاب میں چھ افراد صدق اور امانت میں مشہور ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ائمہ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات نقل کیں راویوں نے ان کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ محدثین میں تین اماموں یعنی امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے اٹھارہ افراد بہت مشہور ہیں اور وہ اصحاب اجماع کہلاتے ہیں۔ ان میں سے چھ امام محمد باقر علیہ السلام، چھ امام جعفر صادق علیہ السلام کےاور چھ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے اصحاب ہیں۔
یونس بن عبدالرحمان، صفوان بن یحیٰ بیاع السابری، محمد بن عمیر، عبدالله بن مغیرہ، حسن بن محبوب سراد اور احمد بن ابی نصر بزنطی۔
یونس بن عبدالرحمان؛ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے آپ سے احادیث اخز کی ہیں۔ پھر انہوں نے امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کا کچھ زمانہ بھی پایا جیسا کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا؛ یونس بن عبدالرحمان کا اپنے زمانے میں وہی مقام ہے جو سلمان فارسی کا اپنے زمانے میں تھا۔
شیخ طوسی نے الفہرست میں کہا ہے کہ مختلف موضوعات پر یونس بن عبدالرحمان کی لکھی ہوئی تیس کتابیں تھیں۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ روزانہ چالیس مومن بھائیوں سے ملاقات کرتے اور پھر اپنے گھر واپس آتے تھے۔ نیز نماز، طعام اور حوائج ضروری کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھنا لکھنا ترک نہ کرتے تھے۔ ان کی اکثر تالیفات علم الکلام میں ہیں اور ان کے بارے میں بعض ممتاز اہل ع و فن کی آراء، ان کی وسعتِ علم اور قوت فکر پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ کشی نے کتاب الرجال، مرزا محمد نے اتقان المقال میں اور محدث قمی نے الکنٰی والالقاب میں صراحت کی ہے۔
محمد بن ابی عمیر؛ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور ان کے فرزند امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے ان دونوں اماموں سے حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا اور پھر انہی معلومات کی روشنی میں فقہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں تالیف کیں۔
احمد بن محمد بن عیسٰی قمی بیان کرتے ہیں کہ محمد بن ابی عمیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک سو افراد کی روایات جمع کی ہیں۔ جاحظ کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار، تمام خوبیوں میں اپنے زمانے کے فرد وحید اور خاص و عام کے نزدیک معتمد ترین شخص تھے۔
فضل بن شاذان نے بیان کیا ہے کہ جب میں عراق گیا تو وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھی کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ارے تمہارے اوپر قرض ہے اور تم صاحب عیال بھی ہو، اس لئے تم کو چاہئے کہ ان کے لئے روزی کماؤ۔ اس حالت میں تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ سجدوں کو طول دینے کیوجہ سے کہیں تمہاری آنکھیں ہی نہ جاتی رہیں۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ وائے ہو تمہارے حال پر کہ تم مجھ پر بہت زیادتی کر رہے ہو۔ ارے اگر سجدوں کو طول دینے سے کسی کی آنکھیں جائا کرتیں تو پھر سب سے پہلے ابن ابی عمیر کی آنکھیں جاتیں کہ جو بہت ہی طولانی سجدے کیا کرتے تھے۔
خلیفہ ہارون نے ان کو اس لئے قید میں ڈال دیا کہ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے خصوصی میل جول رکھتے تھے۔ اس نے یہ پابندی بھی لگا دی کہ ان کو امام کے اصحاب اور خاص دوستداروں کے حالات کی کوئی خبر نہ دی جائے تاہم ان کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ سب کو پہلے ہی سے جانتے پہچانتے تھے۔ وہ ایک مدت تک قید میں رہے اور جب اس سے بہت تنگ آگئے تو انہوں نے قید خانے کے داروغہ سندی بن شاہک کو ایک لاکھ بیس ہزار درہم دئیے تب ان نے ان کو رہا کر دیا۔
ان کے حالات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان کو یہ خوف تھا کہ کہیں ہارون کے ملازمین ان کی وہ تالیفات ہتھیا نہ لیں جو ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث پر مشتمل تھیں۔ اس لئے انہوں نے وہ کتابیں اپنے گھر کے ایک گوشے میں دفن کر دی تھیں لیکن افسوس کہ جب وہ قید سے چھوٹ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سب گل چکی تھیں۔ اس کے بعد وہ جو روایت بھی کرتے محض اپنے حافظے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر سند کے نقل کیا کرتے تھے تاہم فقہاء نے ان کی ایسی بلاسند احادیث کو بھی معتبر مانا ہے کیونکہ وہ ان کے معتمد ہونے اور ان کی روایتوں کے بلاسند ہونے کے مذکورہ بالا سبب سے واقف تھے۔ چنانچہ محدثین میں یہ امر مشہور ہوگیا تھا کہ ابن عمیر کی یہ بلاسند روایات دوسرے قابل اعتماد راویوں کی ان روایات کے مانند ہیں جن کو سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
صفوان بن یحییٰ بیار سابری؛ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے آپ کی وفات کے بعد امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ ان کے حالات میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے چالیس شاگردوں سے روایات لیں اور احادیث ائمہ پر مشتمل تیس سے اوپر کتابیں لکھی ہیں جیسا کہ کشی، طوسی، ابن ندیم اور کتب رجال کے دوسرے مؤلفین نے صراحت کی ہے۔
عبدالله بن مغیرہ بجلی؛ کتب رجال کے مؤلفین نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ روایت میں انتہائی بااعتماد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ان اصحاب میں سے ہیں کہ جن کی آپ سے لی ہوئی روایات کی صحت پر محدثین کی پوری جماعت نے یقین کیا ہے۔ عبدالله بن مغیرہ بجلی نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔
حسن بن محبوب سراد، احمد بن محمد بن عمرو بزنطی؛ یہ دونوں ہی امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام کے معتمد اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے امام محمد تقی علیہ السلام کا زمانہ بھی پایا اور آپ سے فقہ وغیرہ میں روایات بھی لی ہیں۔ کتب رجال کے مؤلفین نے صراحت کی ہے کہ ان دونوں کی بیان کی ہوئی روایات کے قبول کرنے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
چونکہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ان چھ اصحاب، امام جعفر صادق علیہ السلام کے چھ اصحاب اور امام محمد باقر علیہ السلام کے چھ اصحاب کے صدق و دیانت اور ان کی روایات کو قبول کرنے پر سبھی محدثین کا اتفاق ہے اس لئے ان اٹھارہ بزرگوں کو اصحاب اجماع کہا جاتا ہے۔
اگرچہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے شاگردوں میں ان چھ افراد کے علاوہ اور لوگ بھی مشہور ہوئے لیکن جیسا کہ علم رجال کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان چھ اصحاب کے مرتبے کو نہیں پہنچے۔
کتاب؛ سیرت ائمہ اہلبیت علیہم السلام جلد دوم
صفحہ؛ ۳۰۹-۳۱۱
مصنف؛ علامہ سید ہاشم معروف حسنی
التماس دعا؛ بندہ احقر توصیف اسلم امرہ کلاں
No comments:
Post a Comment